سجا کر پھول کے مانند نہیں گلدان میں رکھنا
یہ یادیں ہیں اسے لے لو کہیں ویران میں رکھنا
اُٹھا ہے زور كا طوفاں ذرا بھی خوف مت کھانا
جلا کر تم دیا اپنا اُسی طوفان میں رکھنا
وہاں برچھی ہیں بھالےہیں سبھی ہیں جان کے دشمن
جگر ہو شیر جیسا تو قدم میدان میں رکھنا
زمانے کی محبت تم جہاں چاہے وہاں رکھنا
وطن کی تم محبّت قلبِ کے جزدان میں رکھنا
بُرا زیادہ ہوا ہم سے بھلائی کے مقابل میں
بھلا ہو جائے زیادہ تو عمل میزان میں رکھنا
عدالت میں ہوئی خارج دلیلیں بھی گواہی بھی
بڑی مشکل ہے قاتل کو یہاں زندان میں رکھنا
یہی تسلیم کہتا ہے یہی ہے آرزُو اُس کی
ہزاروں درد ہو دل میں خوشی ہر آن میں رکھنا
Tasleem
©Tasleem wais تسلىم
#