"اے کاش کہ میری خواہشوں کو موت آئے
میں سوجاؤں میرے خوابوں کو موت آئے
یوں ہی تنہائیوں میں اکثر سہم جاتا ہوں
بے رحم درد ناک خیالوں کو موت آئے
بے موسم کی بارش کرتے ہیں یہ آنسوؤں
اِن بن بُلائے مہمانوں کو موت آئے
کِھل جاتے پھول اس بستی میں بھی اگر
نیند سے پہلے خاموشیوں کو موت آئے
رنجیدہ دِل کی اِک ٹوٹی آہ سے ساؔرہ
تیرے ان گنت گناہوں کو موت آئے
_naik sarah"